نسیم حیات



الف۔ گھریلو اور ازدواجی نمونہ
زندگی ایک ایسا مرکز هے جس میں نشیب وفراز پائے جاتے ہیں زندگی میں کبھی انسان خوش، کبھی غمگین، کبھی آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر میاں بیوی با بصیرت اشخاص هوں تو سختیوں کو آسمان اور ناہموار کو ہموار بنادیتے ہیں۔

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا  اس میدان میں ایک کامل اسوہ نمونہ ہیں آپ بچپن سے ہی سختی اور مشکل میں رہی اپنی پاک طبیعت اور طاقت سے تمام مشکلات کا سامنا کیا اورجب شوہر کے گھر میں قدم رکھا تو  ایک نئے معرکہ کا آغاز هوا اس وقت آپ کی شوہرداری اور گھریلو زندگی کے اخلاقیات کھل کر سامنے آئے۔

ایک دن امام علیؑ جناب فاطمہؑ سے کھا نا طلب کیا تا کہ بھوک کو برطرف کرسکیں لیکن جناب فاطمہؑ نے عرض کیا میں اس خدا کی قسم کھاتی ہوں جس نے میرے والد کو نبوت اور آپ کو امامت کے لیے منتخب کیا دو دن سے گھر میں کافی مقدار میں غذا نہیں ہےاور جو کچھ غذا تھی وہ آپ اور آپ کے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ کو دی ہے امام نے بڑی حسرت سے فرمایا اے فاطمہ آخر مجھ سے کیوں نہیں فرمایا میں غذا فراہم کرنے کے لیے جاتا تو جناب فاطمہؑ نے عرض کیا: اے ابوالحسن میں اپنے پروردگار سے حیاء کرتی ہوں کہ میں اس چیز کا سوال کروں جو آپ کے پاس نہ ہو۔

ب۔ ی نمونہ
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ؑکے ی اخلاقیات کو درج ذیل عناوین کے تحت دیکھا جاسکتا ہے جیسے امام اور حجت خدا کا دفاع، امامت اور رہبری کی کامل پیروی اور فدک کے متعلق مختلف میدانوں میں مقابلی اور جنگ و جہاد کے بندوبست میں خوشی اور دلسوزی سے حاضر رہنا، سب سے پہلے آپ نے غصب  شدہ حق کو گفتگو سے حل کرنے کی کوشش کی اور قرآن کریم کی آیات سے دلیلیں قائم کیں۔

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا خلیفہ کےپ اس تشریف لے گئیں اور فرمایا: تم کیوں مجھے میرے بابا کے میراث سے منع کر رہا ہے  اور تم کیوں میرے وکیل کو فدک سے بے دخل کردیا ہے حالانکہ الله کے رسول نے الله کے حکم  سے اسے میری ملکیت میں دیا تھا۔

اسی طرح جب خلافت کا حق چھینا گیا تو دفاع امامت میں پورا پورا ساتھ دیا  اور آپ حسن و حسین کا ہاتھ پکڑ کر رات کے وقت مدینہ کے بزرگوں اور نمایاں شخصیات کے گھرجاتے اور انہیں اپنی مدد کی دعوت دیتے اور پیغمبر کی وصیت یا ىد  دلواتے۔

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں اے لوگو! کیا میرے والد نے علی ؑکو خلافت کے لیے معین نہیں فرمایا تھا؟ کیا ان کی فداکاریوں کو  فراموش کربیٹھے ہو؟ کیا میرے پدر بزرگوار نے ہی نہیں فرمایاتھا کہ میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں اور تمہارے درمیان دو عظیم چیزین چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوں گے اور وہ چیزیں ایک الله کی کتاب اور دوسرا میری اہل بیت۔

ج۔  اقتصادی نمونہ
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اقتصادی اخلاقیات میں بھی همارے لیے اسوہ کامل ہیں سخاوت کے میدان میں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں، آپ نے اپنے بابا سے سن رکھا تھا "السخی قریب من الله" سخی الله کے قریب ہوتا ہے۔

جابر بن عبد الله انصاری کا بیان ہے کہ رسو ل خدا نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ ہو گئے تو محراب میں ہماری طرف رخ کرکے بیٹھ گئے لوگ آپ کو ہر طرف سے حلقہ میں لیے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا جس نے بالکل پرانا کپڑہ پہنا ہوا تھا یہ منظر دیکھ کر رسول خدا نے اس کی خیریت پوچھی اس نے کہا: اے الله کے رسول میں بھوکا ہوں لہذا کچھ کو دیجئے میرے پاس کپڑا بھی نہیں ہیں مجھے لباس بھی دیں۔

رسول خدا نے فرمایا فی الحال میرے  پاس کوئی چیز نہیں ہے لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور الله اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں جاؤ تم فاطمہ کی طرف اور بلال سے فرمایا تم اسے فاطمہ کے گھر تک پہنچا دو، فقیر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے دروازہ پر رکا بلند آواز سے کہا نبوت کے گھرانے والو تم پر سلام، شہزادی ین نے جواب میں کہا  تم پر بھی سلام ہو، تم ہو اس نے کہا کہ میں بوڑھا اعرابی ہوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا لیکن رسول خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، میں فقیر ہوں مجھ پر کرم فرمایئے، خدا آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے، حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنا ہار یا گردن بند جو آپ کو حضرت حمزہ کی بیٹی نے ہبہ کیا تھا اتار کر دے دیا اور فرمایا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعے بہتر چیز عنایت فرمائے،

 اعرابی ہار لے کر مسجد میں آیا، حضور مسجد میں تشریف فرماتھے، عرض کیا اے رسول خدا: فاطمہ زہرا نے یہ ہار دے کر کہا اس کو بیچ دینا حضور یہ سن کر روپڑے اس وقت  جناب عمار یاسر کھڑے ہوئے عرض کیا یارسول الله، کیا مجھے اس ہار کے خریدنے کی اجازت ہے؟ رسول خدا نے فرمایا خرید لو، جناب عمار نے عرض کی اے اعرابی یہ ہار کتنے میں فروخت کرو گے؟ اس نے کہا اس کی قیمت یہ ہے کہ مجھے روٹی اور گوشت مل جائے اور ایک چادرمل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں، اور اتنے دینار جس کے ذریعے میں گھر جاسکوں، جناب عمار اپنا وہ حصہ جو آپ کو رسول خدا  نے خیبر کے مال سے غنیمت میں دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے  ہوئے کہا: اس ہار کے بدلے تجھے بیس دینار، دوسو درہم ، ایک بردیمانی، ایک سواری اور اتنی مقدار میں گیہوں کی روٹیاں اور گوشت فراہم کر رہا ہوں جس سے تم بالکل بے نیاز ہوجاؤ  گے۔

جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابی رسول خدا کے پاس آیا، رسول خدا نے فرمایا: کیا تم بے نیاز ہوگئے ہو؟ اس نے کہا میں آپ پر فدا ہو جاؤں بے نیاز ہو گیا ہوں، جناب عمار نے ہار کو مشک سے معطر کیا اپنے غلام کو دیا اور عرض کیا اس ہار کو لو اور رسول خدا کی خدمت میں دو اور تم بھی آج سے رسول خدا کو بخش دیتا ہوں، غلام ہار لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا اور جناب عمار کی بات بتائی رسول خدا نے فرمایا: یہ ہار فاطمہ کو دو اور تمہیں فاطمہ کو بخش دیتا ہوں، غلام ہار لے کر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں آیا اور آپ کو رسول خدا کی بات سے آگاہ کیا،حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے وہ ہار لیا اور غلام کو آزاد کردیا، غلام مسکرانے لگا، حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے وجہ پوچھی تو غلام نے کہا مجھے اس ہار کی برکت نے مسکرانے پر مجبور کیا جس کی برکت سے بھوکا سیر ہوا اور برھنہ کو لباس اور غلام آزادہ وگیا پھر بھی یہ ہار اپنے مالک کے پاس پلٹ گیا۔

خلاصہ یہ کہ حضرت زہراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو اگرچہ پیغمبر گرامیﷺ کی جانشین نہیں تھیں لیکن وجودی کمالات  اور منصب  عصمت و طہارت کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نہیں ہے۔

جناب سیدہ علمی، عملی، اخلاقی اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متمسک رہے جنہیں اللہ نے"اسوہ حسنہ" قرار دیا ہے، بنابرین حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہیں۔


این متن دومین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

زکات علم، نشر آن است. هر

وبلاگ می تواند پایگاهی برای نشر علم و دانش باشد. بهره برداری علمی از وبلاگ ها نقش بسزایی در تولید محتوای مفید فارسی در اینترنت خواهد داشت. انتشار جزوات و متون درسی، یافته های تحقیقی و مقالات علمی از جمله کاربردهای علمی قابل تصور برای ,بلاگ ها است.

همچنین

وبلاگ نویسی یکی از موثرترین شیوه های نوین اطلاع رسانی است و در جهان کم نیستند وبلاگ هایی که با رسانه های رسمی خبری رقابت می کنند. در بعد کسب و کار نیز، روز به روز بر تعداد شرکت هایی که اطلاع رسانی محصولات، خدمات و رویدادهای خود را از طریق

بلاگ انجام می دهند افزوده می شود.


این متن اولین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

مرد خردمند هنر پیشه را، عمر دو بایست در این روزگار، تا به یکی تجربه اندوختن، با دگری تجربه بردن به کار!

اگر همه ما تجربیات مفید خود را در اختیار دیگران قرار دهیم همه خواهند توانست با انتخاب ها و تصمیم های درست تر، استفاده بهتری از وقت و عمر خود داشته باشند.

همچنین گاهی هدف از نوشتن ترویج نظرات و دیدگاه های شخصی نویسنده یا ابراز احساسات و عواطف اوست. برخی هم انتشار نظرات خود را فرصتی برای نقد و ارزیابی آن می دانند. البته بدیهی است کسانی که دیدگاه های خود را در قالب هنر بیان می کنند، تاثیر بیشتری بر محیط پیرامون خود می گذارند.


آخرین ارسال ها

آخرین وبلاگ ها

آخرین جستجو ها